دنیا کے تمام انسان ایک جیسی سو چ نہیں رکھتے۔ چناچہ کچھ لوگ کائناتی، کچھ لوگ عالمی، کچھ لوگ ملکی، کچھ لوگ صوبائی، کچھ لوگ ضلعی، کچھ لوگ علاقائی، کچھ لوگ خاندانی اور کچھ لوگ صرف ذاتی سوچ رکھتے ہیں کہ انکی سوچ کا محور صرف انکی ذات ہی ہوتی ہے اوروہ ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ میں کل کیا کھاؤں گا، کیا پہنوں گا، کہاں رہوں گا، میری مالی ترقی کیسے ہوگی، میں صحت مند کیسے رہوں گا، مرنے کے بعد میرا کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
غرضیکہ انکی سوچ انکی ذات کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے ۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ خاندان والوں، علاقہ والوں، ضلع والوں، صوبوں والوں، ملک والوں اور دنیا والوں کا کیا حال ہے اور ان پر کیا بیت رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
اسی ذاتی سوچ رکھنے والوں کیلئے ایک حدیث مشہور ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو تباہ و برباد کردو کہ وہاں جرائم اور گناہ بہت بڑھ گئے ہیں اور وہاں کے لوگ حد سے زیادہ نافرمان ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اس علاقے میں فلاں شخص بڑا متقی اور پرہیزگار ہے اس کا کیا کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو بھی ان کے ساتھ ہی ہلاک کردو کیونکہ اس کو ساری زندگی اپنی ہی فکر رہی مگر اپنے پڑوسیوں اور محلہ والوں کیلئے کبھی نہ سوچا کہ ان کا دنیاوی اور دینی بھلا کیسے ہو اور یہ لوگ کس حال میں ہیں۔
میری اپنی رائے کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 95فیصد تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جس کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ بے یارو مددگار نظر آتا ہے۔ میں ایسے لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنی سوچ تبدیل کرتے ہوئے خاندانی سوچ اور جس قدر ممکن ہو اس سے بھی اعلیٰ سوچ اختیار کریں تاکہ ہر انسان کی سوچ ا س طرح ہونے سے دنیا میں امن و سکون قائم ہو، غریبوں اور مسکینوں کی امداد ہو اور یہ دنیا پھلے پھولے۔
قارئین گرامی! اس ذاتی سوچ رکھنے والوں کے بالکل برعکس کچھ لوگ کائناتی سوچ رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ ان میں سر فہرست اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ ہم نے انکو تمام جہان والوں کیلئے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔
اس آیت میں ’عالم‘ کی جمع ’عالمین‘ استعمال کیا گیا ہے جسکے معنی ’تمام جہاں‘ یعنی کائنات کے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس عالم دنیا کیلئے نہیں بلکہ پوری کائنات کیلئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں۔ رحمت کا مطلب دوسروں پر رحم و کرم کرنا یعنی ان کو فائدہ پہنچانا ہے۔
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنوں کیلئے ’ رؤف رحیم‘ کہا ہے۔ ’رحیم‘ کے معنی ہیں دوسروں کو فائدہ پہنچا کر ان پر رحم کرنے والا او ر ’رؤف‘ کے معنی ہیں دوسروں سے تکلیفوں اور پریشانیوں کو دور کرکے رحم کرنے والا۔ بہرکیف قرآن کریم کی دونوں آیات سے یہ ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کائناتی سوچ رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اس بات کی گواہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی صرف اپنی ذات و خاندان اور ملک و قوم کیلئے ہی نہیں سوچا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی تمام مخلوقات کی بہتری و بھلائی اور ان سے تکالیف و پریشانیوں کو دور کرنے کی سوچتے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر پوری دنیا کے انسان مسلم ہوں یا غیر مسلم، اپنی اپنی سوچ کائناتی بنالیں اور اسکے مطابق حتی الا مکان جدوجہد کرکے زندگی گزاریں تو یہ بعید نہیں کہ یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن کر تباہی و بربادی سے محفوظ ہوجائے اور یہ دنیا جنت نما بن جائے۔
لیکن یہاں یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ ہر انسان جس سوچ کا حامل ہوتا ہے اس پر اسی سوچ کے مطابق کوشش اور جدو جہد کرنا لازم ہوتا ہے۔ مثلاً ،یہ درست نہیں کہ سوچ تو ملکی سطح کی بنالیں اور جدوجہد اور کوشش صرف صوبائی سطح کی ہو کیونکہ اگر صرف سوچ رکھنے سے نتیجہ برآمد ہونے لگے تو پھر تو ہر شخص ہی کائناتی سوچ بنالے۔اس لئے صرف سوچ بنانے سے کیا ہوتا ہے؟ اسی بات کو علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کہا ہے...
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
بہرحال میں یہ کہہ رہا تھا کہ سوچ کے مطابق ہر انسان کو قربانی دینی ہوتی ہے اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ چناچہ انسانوں اور جناتوں میں سب سے بلند اور اونچی سوچ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی تو اسی سوچ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جدوجہد اور کوششیں کرنی پڑیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے جسکا مفہوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اتنی تکالیف پہنچائی گئی ہیں جتنی تکالیف کسی اور کو نہیں ہوئیں۔چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ کائناتی اور سب سے اونچی تھی تو اسی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی بھی دینی پڑی اور جدوجہد بھی کرنی پڑی اور اس کی گواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ہے۔ تفصیل کیلئے قرآن و سنت اور سیرت پر مبنی کتابوں کا مطالعہ کریں، ابھی تفصیل کا موقع نہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ سوچ کے مطابق ہر انسان کو جدوجہد اور کوشش کرنی چاہئے ورنہ نتیجہ سوچ کے مطابق برآمد نہیں ہوگا۔
نیز یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہر انسان کی جو سوچ ہوتی ہے اسی سوچ کے مطابق اس کی آزمائش اور امتحان بھی ہوتا ہے ۔ جانی ومالی بلکہ ہرطرح کی بلاؤں، آفتوں اور پریشانیوں کو اس پر مسلط کرکے آزمایا جاتا ہے کہ اس کے صبر کا پیمانہ اسکی سوچ کے مطابق ہے یا نہیں۔ اب اگر وہ اپنی سوچ کے مطابق اس امتحان میں سو فیصد کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اسی کے مطابق اس کو طاقت اور عہدہ دیا جاتا ہے اور پھر اسکی سوچ کے مطابق نتیجہ برآمد ہونے لگتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سوچ کے مطابق آزمائش و امتحان اور پھر اس امتحان میں کامیابی کے مطابق عطاو ثواب مل جاتا ہے۔
ایسا نہیں کہ آزمائش توکائناتی ہو اور کامیابی بھی کائناتی ہو مگر اس کی عطا و جزا عالمی یا ملکی ہو۔ اس کا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کائناتی سوچ پھر اسکے مطابق ابتلا و امتحان پھر سو فیصد کامیابی اور اسی کائناتی سوچ و ابتلاء کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام و مرتبہ کا ملنا ہے کہ بالاتفاق تمام انسانوں اور جناتوں میں سب سے بلند اور اونچا مقام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے بعد کائنات میں اگر کسی کا مقام و مرتبہ ہے تو وہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولادِ آدم کے سردار ہیں اور سید الکونین ہیں۔ لہذا معلوم ہوا کہ ہر انسان کو اپنی سوچ کے مطابق جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور ابتلا و امتحان میں صبر کے مطابق اس کو مقام و مرتبہ بھی عطا کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہر انسان کی جو سوچ ہوتی ہے اورپھر اسی سوچ کے مطابق دنیا میں جو جدوجہد اور کوشش کرتا ہے ، آزمائش و امتحان میں صبر کرتا ہے، اگر وہ مرتے دم تک اسی پر قائم رہا تو مرنے کے بعد بھی اسی سوچ کے مطابق جدوجہد وغیرہ کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن اگر وہ غیر مسلم تھا اور کفر ہی پر انتقال ہوا تو اس کی سوچ و فکر اور اس کی جدوجہد کے مطابق اور آزمائش و ابتلاء پر صبر کے بدلے اس سے عالم برزخ اور جہنم میں عذاب کو کم کردیا جاتا ہے۔
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھر پور مدد کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے کی وجہ سے کافروں کی جانب سے جو تکالیف پہنچیں ان پر صبر بھی کیا لیکن وہ مسلمان نہ ہوسکے اور کفر پر ہی ان کا انتقال ہوا مگر اس کے باوجود حدیث میں ہے کہ ان کو جہنم میں سب سے ادنی درجے کی سزا ہوگی کیونکہ انہوں نے سب سے اعلیٰ مقام و مرتبہ رکھنے والی کائناتی سوچ کے حامل ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی۔
معلوم یہ ہوا کہ غیر مسلموں کو بھی مرنے کے بعد ان کی سوچ و فکر کے درجے اور اس کی جدوجہد اور آزمائش و امتحان میں صبر کے مطابق اس کا صلہ ملے گا مگر اس صورت میں کہ انکے اعمال کے بقدر عذاب میں کمی کردی جائے گی۔اس لئے اس ضمون سے غیر مسلم بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ کائناتی بنائیں اور مذکورہ تعلیمات پر عمل کرکے دنیامیں اور مرنے کے بعد بھی اس کا صلہ پائیں۔
قارئین گرامی!میں نے سب سے ادنی اور اعلیٰ سوچ کاذکر کیا ہے ۔ ان دونوں کے درمیان جتنی بھی سوچیں ہیں ان کے بارے میں خود ہی اندازہ لگا کر باقی باتیں سمجھ جائیں۔
بہر کیف میں نے مذکورہ تحریر کا عنوان ’کائناتی سوچ اور ذاتی سوچ والے انسان میں فرق‘ سے متعلق باتیں عرض کردی ہیں اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ کی سوچ کیا ہے،کیا ہونی چاہئے اور یہ کہ آپ اس کے مطابق محنت اور جدو جہد کررہے ہیں یا نہیں؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یا اللہ تمام انسانوں نیک ارادوں والا اور ان کی سوچوں کے مطابق عمل کرنے والا بنادے، آمین!