پریکٹیکل ثبوتوں کے ساتھ
پہلی بات یہ کہ ایسے تمام مسلمانوں کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے اور اللہ ہی انکی نیتیں اور اعمال بہتر جانتا ہے لہذا انکے شہید ہونے یا نہ ہونے پرحتمی فتوی نہیں لگایا جاسکتا۔ البتہ شریعت میں بہت سی حالتوں میں مرنے والوں کو شہید کہا گیا ہے اس لئے شریعت کی رو سے شہید کہنا بالکل جائز ہوگا مگر اس صورت میں کسی مرنے والے کو سو فیصد جنتی یا جہنمی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ جبکہ جن مسلمانوں کی نعشیں صدیوں اور سالوں سے موت کے بعد تروتازہ رہیں وہ یقیناًشہید ہیں اور شہید ہونے کی وجہ سے جنتی ہیں۔
دوسر ی بات یہ کہ اللہ نے مٹی کوحکم دیا ہے کہ انبیاء کے نعشوں کو نہ کھائے اور شہدائے کرام کے بارے میں قرآن میں بھی آیا ہے کہ وہ زندہ ہیں ، انہیں غذا فراہم کی جاتی ہے اور وہ اپنے رب کے پاس ہیں جس سے ہمارا موقف ثابت ہوتا ہے کہ وہ شہید ہیں اور یقیناًجنتی ہیں نیزیہ بات تاریخی واقعات، شواہد، گواہوں اور ثبوتوں سے بھی ثابت ہے ۔لہذا اگر کوئی مسلمان اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے تب اسکی نعش کو زمین کے اوپر رہنے دیا جائے یا زمین کے اندر، دونوں صورت میں نعش تروتازہ رہے گی ۔اگر مرنے والے کی نیت میں فتور ہوگا یا وہ شہید نہ ہوا تب اسکی نعش سڑ گل کر ختم ہونا شروع ہوجائے گی۔
ایک اصول یاد رکھا جائے کہ اگر کسی بیرونی قوت سے نعش پر دباؤ ڈالا جائے تب وہ محفوظ نہیں رہے گی(مثلاً کسی نعش کو آگ میں جلایا جائے، جانور کھاجائے، بم سے پھٹ جائے،پانی میں مچھلی کھاجائے ، چھری سے ٹکڑے کردیا جائے۔ وغیرہ) یہاں تک کہ اگرکسی تروتازہ نعش کو زمین سے نکال کرجلایا جائے ، کاٹا جائے، پھاڑ دیا جائے تو ایسا ہوجائے گا کیونکہ اللہ نے اس قسم کی بیرونی قوتوں سے انبیاء اور شہیدوں کی نعشوں کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیانیز یہاں پرایک شبہ بھی ہوتا ہے کہ مرنے والے دین اسلام کیلئے نہ جلے ہوں،دین اسلام کیلئے بم سے نہ پھٹے ہوں ،وغیرہ۔ مندرجہ ذیل لنک کے ذریعے ’کروڑوں سچے مسلمانوں کی لاشوں کے محفوظ رہنے پرقرآن و حدیث سے دلائل اورتصدیق کرنے کے طریقے ‘کا مطالعہ کرلیجئے۔
کافروں کی نشاندہی پر قبریں کھود کر لاشیں ان کو دکھائ جا سکتی ہیں اگر سارے کفار مسلمان ہونا چاہیں۔
مختلف واقعات و شواہد کی ان خبروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ:
جب قانون کے مطابق معمولی ظلم کے لئے ایسا کیا جاسکتا ہے تو دنیا کے مسائل حل کرنے یعنی جنگیں روکنے کے لئے کیوں نہیں ایسا کیا جا سکتا ہے کہ اس عمل سے کفار مسلم ہو جائیں گے اور اس طرح دنیا کے مسائل حل ہو جائیں گے نیز مرنے کے بعد عذاب قبر سے بچنے والے بھی بن جائیں گے۔
ہم سب یعنی سات ارب انسان اپنی ہی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کیوں کہ تمام مذہبی کتابیں کہتی ہیں کہ اس کائنات کا خالق ایک ہے۔ بقول قرآن کریم اگر خالق کائنات دو ہوتے تو آسمان و زمین تباہ و برباد ہو جاتے ، ہر خدا اپنا اپنا حصہ الگ کرکے لے جاتا اور ہر خدا ایک دوسرے پر سربلندی اور فوقیت چاہتا اور اس طرح آسمان ،زمین، چاند اور سورج وغیرہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے اور جس طر ح آج کائنات کا سسٹم چل رہا ہے اس طرح نہیں چلتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا جس سے واضح طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے واقعی طور پر اس کائنات کا خالق ایک ہی ہے۔
مگر ہم سات ارب انسانوں نے مل کر آج تک یہ تحقیق نہیں کیا کہ اس یکتا خالق کائنات کا ذاتی نام کیا ہے اور اس کی صفات کیا ہیں جس کی وجہ سے آج دنیا میں ایک حقیقی خدا کے علاوہ دوسرے بہت سے باطل خداؤں کے نام بھی موجودہیں جس کی وجہ سے ہم سات ارب انسان آج مختلف مذاہب میں بٹ کر اور تقسیم ہو کر آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے، بغض رکھتے، ایک دوسرے کی نا حق گردنیں کاٹتے اور جنگیں کرتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہم سب انسان مل کر باطل اور فسادی مداحوں سے نفرت کرتے، بغض رکھتے اور انہیں قتل کرتے تاکہ ہم سب انسان شیر و شکر ہو کر امن و سکون ، محبت و پیار اور اتفاق و اتحاد سے اس دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے۔ مگر ہماری سستی اور غفلت سے آج تک ایسا نہ ہو سکا۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ آج ہم سب خود اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے دہشتگردی کا شکار ہیں اور اپنی ہی ہٹ دھرمی کی سزا صدیوں سے پاتے آرہے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ جتنا جلد ہو سکے ہم سب انسان دہشت گردی اور بدامنی کو جڑ سے نیست و نابود کرنے کے لئے عالمی میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر تمام پلیٹ فارم کے ذریعہ اس ایک حقیقی خالق خدا (God Creator Real ) کے نام اور اس کی صفات کی تحقیق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور نیچر کے عملی حسن سلوک (behavior of nature) سے معلوم کریں کہ آخر وہ کونسا خدا ہے جس کے اختیار میں آگ،پانی، مٹی اور ہوا ہے اور پھر ہم سب مل کر اس کو مان لیں تاکہ ہم سب ایک ہو جائیں اور ان تمام تصوراتی خداؤں کو چھوڑ دیں جن کے اختیار میں نیچرنہیں ہے۔ کیوں کہ ایک خدا یعنی حقیقی خالق کائنات کے لئے ضروری ہے کہ یہ چیزیں اس کے اختیار میں ہوں۔
اگر ہم سب نے ایسا نہ کیا تو پھر ہم سب اسی طرح دہشتگردی کا شکار ہوتے رہیں گے۔آج کوئی ،تو کل کوئی دوسرا جیسے کہ صدیوں سے مذہبی جنگیں ہوتی آ رہی ہیں۔
عقل مندوں اور ماننے والوں کے لئے تو اشارہ بھی کافی ہے۔ بے وقوفوں اور ہٹ دھرموں کے لئے تو کچھ بھی کافی نہیں ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔
اگر آپ میری رائے سے متفق ہیں تو رابطہ کرکے ہمارے ساتھ اس پر کام شروع کریں اور اگر متفق نہیں تو میری ا صلاح کردیں۔ مہربانی ہوگی۔
آپ کا ایک انسانی بھائی مولانا ابرار عالم
چیئر مین مذہبی اقوام متحدہ پاکستان
رابطہ نمبرز:
00923062045286
00923149943699