ولید بن عبد الملک اموی کے دورِ حکومت میں جب روضہ منورہ کی دیوار گرپڑی اور بادشاہ کے حکم سے تعمیر جدید کیلئے کھودی گئی تو ناگہاں بنیاد میں ایک پاؤں نظر آیا۔لوگ گھبراگئے اور سب نے یہی خیال کیا کہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پائے اقدس ہے۔ لیکن جب حضرت عروہ بن زبیرصحابی رضی اللہ عنہ نے دیکھا اور پہچانا پھرقسم کھا کر فرمایا کہ’یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس پاؤ ں نہیں بلکہ یہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پاؤں ہے ‘۔ یہ سن کر لوگوں کی گھبراہٹ اور بے چینی میں قدرے سکون ہوا۔ (بخاری شریف ج۱ ص186)
تبصرہ:
بخاری شریف کی یہ روایت اس بات کی زبردست شہادت ہے کہ صحابہ کرام کے مقدس جسموں کو قبر کی مٹی برسوں گزرجانے کے بعد بھی نہیں کھاتی۔جب صحابہ کا یہ حال ہے تو انبیاء علیہم السلام کا کیا حال ہوگا۔پھر امام النبیاء سید کونین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا کیا کہنا؟جبکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ’نبی اللہ حی برزق‘ (یعنی اللہ کے نبی زندہ ہیں اور انہیں روزی بھی دی جاتی ہے)